برگد | خودنوشت | صدف مرزا Sadaf Mirza
آرٹ پر دل کش اشاعت
ضخامت 832 صفحات | مجلد
اپنی سوانح حیات ’’برگد‘‘ کی مانند صدف مرزا، بہ ذات خود بھی ایک ایسا برگد ہے جو عین جوانی میں، جب کہ اس کی ہر
شاخ پر بلبلیں بولتی تھیں، حسن کی کوئلیں کُوکتی تھیں، اُکھڑا اور سات سرزمین پار کہاں بویا گیا … لِٹل مرمیڈ کے ملک میں
ڈنمارک میں … عام طور پر کسی بھی پودے کو جڑ سے اکھاڑیں تو اُس کی جڑوں کو ہوا لگ جاتی ہے اور وہ کسی اجنبی سر
زمین میں نہیں پنپتا … جب کہ اِس برگد کو ہوا تو لگی لیکن اُس نے پھر بھی اِس نئی مٹی میں جڑیں پکڑیں جو بہت گہرائی تک
چلی گئیں اور یوں وہ پہلے کی نسبت زیادہ گھنا اور سایہ دار ہوتا گیا … اب اس کی شاخوں پر نہ صرف آبائی پکھیرو کُوکتے تھے
بلکہ ڈنمارک کے ادب، شاعری، ثقافت اور فلسفے کے سو رنگ پرندے بھی چہکنے لگے تھے … یہ برگد ہانز کرسچن اینڈرسن کی
مانند داستان گو ہو گیا … صدف مرزا، ایک خود سر سی عورت ہے … ہر لمحہ مرنے مارنے پر تیار، خنجر بہ کَف، لیکن وہ یہ خنجر
اپنی ہی ذات کی تنہائیوں میں اتارتی ہے … خود اپنے آپ کو تخلیق کے کَرب میں مبتلا کر کے مار ڈالتی ہے… ’’برگد‘‘ ایک ناول، ایک
آپ بیتی، ایک اعتراف … روا ں اور مؤثر نثر، اُردو ادب میں ایک چراغ کی مانند روشن ہوگیا ہے. (مستنصر حسین تارڑ)
کچھ مصنفہ کے بارے میں:
صدف مرزا، شاعرہ، مصنفہ، مترجم اور صحافی ہیں۔ گزشتہ تیس برس سے نیلزبوہر اور پانز کرسچن اینڈرسن کے دیس ڈنمارک
میں مقیم ہیں۔ جہلم کالج سے بی اے کیا اور چار برس تک کالج کی نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں میں بہترین طالبہ رہیں۔ ایف
اے اور بی اے میں ٹاپ کر کے دو مرتبہ گولڈ میڈل کی حقدار قرار پائیں۔ مباحثوں، مشاعروں، مذاکروں اور پنجابی ٹاکروں میں
پاکستان بھر سے جہلم کالج کے لیے انعامات و ٹرافیاں جیت کر لائیں۔ کالج میگزین کے لیے مضامین، نظمیں اور افسانے لکھے۔
زمانہ طالب علمی میں افسانہ نویسی میں متعدد انعامات حاصل کیے۔ سال دوم کی طالبہ کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا اور
بھاری اکثریت سے جیت گئیں۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے بی ایڈ کی ڈگری حاصل کی جبکہ کوپن ہیگن یونیورسٹی کالج
سے چار برس تعلیم حاصل کی اور ڈینش، انگریزی، تاریخ اور غذائیت کے اختیاری مضامین کا انتخاب کیا۔ درس و تدریس کے بعد
یورپ کی سرزمین پر پہنچیں تو ڈنمارک کی کئی تنظیموں سے منسلک ہوئیں اور گزشتہ دس برس سے یورپین لٹریری سرکل سے
وابستہ اور صدارتی نشست پر مسند نشیں ہیں۔ اب مکمل طور پر تخلیقی اور تحقیقی موضوعات پر کام کر رہی ہیں۔ صدف مرزا، عالمی
سطح پر پاکستان کے مثبت اور تعمیری کردار اُجاگر کرنے کی غیر رسمی سفیر ہیں۔ پاکستان کی ساٹھ سالہ یومِ آزادی پر ان کا ترانہ ’’اے
وطن تجھ کو کروں پیش میں سرمایۂ تن‘‘ یورپ کی فضاؤں میں گونجتا رہا۔ ڈینش شعر وادب پر ان کی دو جامع کتب جبکہ ’’نیلز بوہر‘‘ کی
زندگی پر کتاب حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔
Reviews
There are no reviews yet.